Monday, 25 September 2023

بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا اور بس

 بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا، اور بس

جاگی تو میرے سامنے صحرا تھا اور بس

آیا ہی تھا خیال کہ پھر دُھوپ ڈھل گئی

بادل تمہاری یاد کا برسا تھا، اور بس

ایسا بھی انتظار نہیں تھا کہ مر گئے

ہاں اک دِیا دریچے میں رکھا تھا اور بس

تم تھے نہ کوئی اور تھا آہٹ نہ کوئی چاپ

میں تھی اُداس دُھوپ تھی رستہ تھا اور بس

یوں تو پڑے رہے مِرے پیروں میں ماہ و سال

مُٹھی میں میری ایک ہی لمحہ تھا، اور بس


سیما غزل

No comments:

Post a Comment