مجھے اے ہم نفس اندیشۂ برق و خزاں کیوں ہو
مِری پرواز محدودِ فضائے گلستاں کیوں ہو
جنوں کی وُسعتوں پر تنگ ہے عرصہ دو عالم کا
جو سجدہ ہو تو پھر سجدہ بقیدِ آستاں کیوں ہو
مِرے کام آ گئی آخر مِری کاشانہ بر دوشی
شرار و برق کی زد پر بھی میرا آشیاں کیوں ہو
غمِ دل بھی جو رُسوائے مذاقِ عام ہو جائے
تو پھر ان داستانوں میں ہماری داستاں کیوں ہو
پیالوں کی کھنک سے بھی جہاں دل ٹوٹ جاتے ہیں
وہاں چھایا ہوا ہر بزم پر خوابِ گِراں کیوں ہو
نہ میں جاندادۂ ساقی، نہ میں وارفتۂ مطرب
اگر محفل سے اٹھ جاؤں تو محفل بد گماں کیوں ہو
میں جس عالم میں ہوں اپنی جگہ اے شور تنہا ہوں
جُدا ہو جس کی منزل وہ رہینِ کارواں کیوں ہو
شور علیگ
منظور حسین شور
No comments:
Post a Comment