Wednesday 13 September 2023

نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا

 نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا

تِرے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا

یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں

پتہ تو ہے کہ اسے عمر بھر نہیں آنا

یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی

جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

ذرا سی غیب کی لُکنت زبان میں لاؤ

بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا

ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے

اسی لیے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا

ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی

نہیں تو تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا

کروں مسافتیں نا آفریدہ راہوں کی

مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا


آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment