چھیڑا جو عرضِ حال تو سارے نکل گئے
اک ایک کر کے چرخ سے تارے نکل گئے
لوگوں کے دل کو جیتنے آئے تھے جیت کر
نقشہ زمیں کا جنگ میں ہارے، نکل گئے
مومی مجسمے تھے تپش سے پگھل گئے
دیپک چھڑا تو درد کے مارے نکل گئے
تیور ہوا کے دیکھ کے چپ چاپ ہو لئے
ہاتھوں سے اپنے بال سنوارے نکل گئے
اس حافظے کی خیر کہ تیرے فراق میں
فرصت سے جتنے لفظ سنوارے نکل گئے
صوفیہ بیدار
No comments:
Post a Comment