Saturday, 30 September 2023

معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے

 معصوم نظر کا بھولا پن، للچا کے لُبھانا کیا جانے

دل آپ نشانہ بنتا ہے،۔ وہ تیر چلانا کیا جانے

کہہ جاتی ہے کیا وہ چین جبیں یہ آج سمجھ سکتے ہیں کہیں

کچھ سیکھا ہُوا تو کام نہیں،۔ دل ناز اٹھانا کیا جانے

چٹکی جو کلی کوئل کُوکی، اُلفت کی کہانی ختم ہوئی

کیا کس نے کہی کیا کس نے سُنی یہ بات زمانہ کیا جانے

تھا دَیر و حرم میں کیا رکھا جس سمت گیا ٹکرا کے پِھرا

کس پردے کے پیچھے ہے شُعلہ، اندھا پروانہ کیا جانے

یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی

جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے

سجدوں سے پڑا پتھر میں گڑھا لیکن نہ مِٹا ماتھے کا لکھا

کرنے کو غریب نے کیا نہ کِیا، تقدیر بنانا کیا جانے

آنکھوں کی اندھی خود غرضی کاہے کو سمجھنے دے گی کبھی

جو نیند اُڑا دے راتوں کی، وہ خواب میں آنا کیا جانے

پتھر کی لکیر ہے نقشِ وفا، آئینہ نہ جانو تلووں کا

لہرایا کرے رنگیں شُعلہ، دل پلٹے کھانا کیا جانے

جس نالے سے دنیا بے کل ہے وہ جلتے دل کی مشعل ہے

جو پہلا لو کا خود نہ سہے، وہ آگ لگانا کیا جانے

ہم آرزو آئے بیٹھے ہیں اور وہ شرمائے بیٹھے ہیں

مشتاق نظر گستاخ نہیں، پردہ سرکانا کیا جانے


آرزو لکھنوی

No comments:

Post a Comment