پھول جو تیرے لیے ہم نے دھرے ہیں اب تک
سوکھ جانے پہ بھی خوشبو سے بھرے ہیں اب تک
آتشیں آنکھوں سے حیرت کا دھواں اٹھتا ہے
جڑ توانا ہے، مِرے پات ہرے ہیں اب تک
جھیل سی آنکھوں میں کھل پایا نہیں کوئی کنول
رونقِ دید سے ہم لوگ پرے ہیں اب تک
زندگی وہ تیرے مقصد سے ہی واقف نہیں تھے
بہہ کے جو بحرِ تغافل میں مرے ہیں اب تک
ان کو اٹھتا میں سرِ بزمِ جہاں دیکھتا ہوں
تیری دہلیز پہ وہ سر جو دھرے ہیں اب تک
یہ الگ بات اسے میں نے بتایا نہیں ہے
اس کے بارے مِرے جذبات کھرے ہیں اب تک
یہ مِری دھرتی ہے اس دھرتی کا تاریخ سے پوچھ
اس کے بیٹے نہ ڈریں گے، نہ ڈرے ہیں اب تک
اس قدر کوئی نکما نہیں ہوتا عادل
ہم بھی جینے کے لیے کچھ تو کرے ہیں اب تک
نوشیروان عادل
No comments:
Post a Comment