مری وفا تو سراہے، مجھے ملے نہ ملے
وہ شخص گاہے بگاہے مجھے ملے نہ ملے
میں اس کو ٹوٹ کے چاہوں، اسے ملوں نہ ملوں
وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے، مجھے ملے نہ ملے
کہا گیا ہے کہ; خود کردہ را علاجِ نیست
مرے لیے نہ کراہے، مجھے ملے نہ ملے
وفورِ خلوتِ شب میں تو میرے دھیان میں ہو
جفا کرے سرِ راہے، مجھے ملے نہ ملے
سوالِ ہم قدمی کیا، کہاں کی ہم نظری
کُھلے ہوئے ہیں دوراہے، مجھے ملے نہ ملے
وہ زینتِ چمنستاں ہے اور میں کیا ہوں
سو جان کر پرِ کاہے، مجھے ملے نہ ملے
مرے سخن کی کمائی عطا ہے بس اس کی
غزل تو دیکھے وہ چاہے مجھے ملے نہ ملے
رمیدگی تو رہے گی لہو کی گردش میں
غزالِ چشمِ سیاہے مجھے ملے نہ ملے
کسی کا دھیان ہوا کم سو فکر ہے مجھ کو
خیالِ تازہ نگاہے، مجھے ملے نہ ملے
وہ کہتا رہتا تھا اختر، میں صرف اُس کا ہوں
وہ اپنا قول نباہے، مجھے ملے نہ ملے
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment