وہ کتنے حسین بسیرے تھے
جب دور غموں سے ڈیرے تھے
جو کھیل میں حائل ہوتا تھا
نفرین کے قابل ہوتا تھا
ہر اک سے اُلجھ کر رہ جانا
رُک رُک کے بہت کچھ کہ جانا
ہنس دینا باتوں باتوں پر
برسات کی کالی راتوں پر
معصوم فضا میں رہتے تھے
ہم تو یہ سمجھ ہی بیٹھے تھے
خوشیوں کا اَلم انجام نہیں
دنیا میں خزاں کا نام نہیں
انور مسعود
No comments:
Post a Comment