درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں
دیکھیے روح سے کب داغ پرانے جائیں
ہم کو بس تیری ہی چوکھٹ پہ پڑے رہنا ہے
تجھ سے بچھڑیں نہ کسی اور ٹھکانے جائیں
اپنی دیوار انا آپ ہی کر کے مسمار
اپنے رُوٹھوں کو چلو آج منانے جائیں
جانے کیا راز چھپا ہے تِری سالاری میں
تُو جہاں جائے تِرے پیچھے زمانے جائیں
رہیں گُمنام تو بس تجھ سے ہی منسوب رہیں
جانے جائیں تو تِرے نام سے جانے جائیں
دیکھ پائیں گے ان آنکھوں میں اداسی کیسے
اپنے دُکھڑے نہ ضیا! ان کو سنانے جائیں
ضیا ضمیر
No comments:
Post a Comment