نہ گل سے ہے غرض تیرے نہ ہے گلزار سے مطلب
رکھا چشم نظر شبنم میں اپنے یار سے مطلب
یہ دل دام نگہ میں ترک کے بس جا ہی اٹکا ہے
بر آوے کس طرح اللہ اب خونخوار سے مطلب
بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ
مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب
نہ سمجھا ہم کو تُو نے یار ایسی جاں فشانی پر
بھلا پاویں گے اے ناداں کسی ہشیار سے مطلب
نہ چندا کو طمع جنت کی، نے خوف جہنم ہے
رہے ہے دو جہاں میں حیدر کرارؑ سے مطلب
ماہ لقا چندا
No comments:
Post a Comment