کسی کو دل کسی کو گھر میں رکھا
ہمیں تو عشق نے چکر میں رکھا
تجھے پوری محبت مل گئی ہے
میں آدھا رہ گیا، اس ڈر میں رکھا
یقیناً ہم تو اس قابل نہیں تھے
ہمیں تو تم نے خود بہتر میں رکھا
ہدایت سے بہت ہی دور تھا میں
نہ کوئی فرق خیر و شر میں رکھا
میں شاید کام آ جاؤں کسی کے
کسی مسجد، کسی مندر میں رکھا
ہمارا عشق دُھندلا پڑ رہا تھا
سو ہم نے نے خود اک منظر میں رکھا
عدو کی جان ساجد! قیمتی ہے
میں مرنے کو ہوں اس لشکر میں رکھا
ساجد رضا
No comments:
Post a Comment