تم ماتھے پہ بل ڈال کے جو بات کرو گی
تو یاد رہے ہم سے بھی ویسی ہی سنو گی
یہ ہمسفری مصلحتِ وقت تھی، ورنہ
یہ تو ہمیں معلوم تھا تم ساتھ نہ دوگی
یہ تازہ ستم ہم کو گوارہ تو نہیں ہے
ہم یہ بھی سہہ لیتے ہیں کیا یاد کرو گی
ہم شوق میں برباد ہوئے اپنے ہی ہاتھوں
روداد ہماری جو سنو گی تو ہنسو گی
تم آج سمجھتی ہو ہمیں غیر تو سمجھو
اوروں سے ملو گی تو ہمیں یاد کرو گی
منزل بھی ابھی دور ہے اور راہ بھی دشوار
کیا ہو گا اگر اپنے ہی سائے سے ڈرو گی
اپنوں سے خفا ہو کے کہاں جاؤ گی آخر
اقبال کو کب تک نظر انداز کرو گی
اقبال عظیم
No comments:
Post a Comment