بوجھیں تو جانوں
شرات سے بھری آنکھیں
ستاروں کی طرح سے جگمگاتی ہیں
شرارت سے بھری آنکھیں
مِرے گھر میں اُجالا بھر گیا
تیری ہنسی کا
یہ ننھے ہاتھ جو گھر کی کوئی شے
اب کسی ترتیب میں رہنے نہیں دیتے
کوئی سامانِ آرائش نہیں اپنی جگہ پر اب
کوئی کیاری سلامت ہے
نہ کوئی پُھول باقی
یہ مٹّی میں سنے پاؤں
جو میری خوابگہ کی دُودھیا چادر کا ایسا حال کرتے ہیں
کہ کچھ لمحے گزرنے پر ہی پہچانی نہیں جاتی
مگر میری جبیں پر بل نہیں آتا
کبھی رنگوں کی پچکاری سے
سر تا پا بھگو دینا
کبھی چُنری چھپا دینا
کبھی آنا عقب سے
اور میری آنکھوں پہ دونوں ہاتھ رکھ کر
پُوچھنا تیرا
بھلا میں کون ہُوں
بوجھیں تو جانوں
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment