آبرو آدمیت کی سستی ہے کیا
کس طرح مان لوں زبردستی ہے کیا
آدمی پر کرے جب ستم آدمی
ایسے لمحوں میں رحمت برستی ہے کیا
تیرے بندوں کے ہاتھوں سے برباد ہے
یا الٰہی وہی تیری بستی ہے کیا
سفرا و بادہ و جام تیرے لیے
اور میرے لیے فاقہ مستی ہے کیا
دل کے کعبہ میں ہے پھر صنم معتکف
سوچتا ہوں یہی بت پرستی ہے کیا
یہ جو ہیں تیری آنکھیں یہ ابرو ترے
ان کے آگے مرے دل کی ہستی ہے کیا
ہم جو پہلے ہی رسوا و بدنام ہیں
پھر یہ خلق خدا فقرے کستی ہے کیا
حسرتیں سینکڑوں سر اٹھانے لگیں
زندگی اس قدر ببھی ترستی ہے کیا
آج اختر مقابل ہے قارون پھر
دیکھتا ہوں زمیں اس کو دھنستی ہے کیا
حسنین اختر
No comments:
Post a Comment