Sunday, 17 September 2023

آبرو آدمیت کی سستی ہے کیا

آبرو آدمیت کی سستی ہے کیا

کس طرح مان لوں زبردستی ہے کیا

آدمی پر کرے جب ستم آدمی

ایسے لمحوں میں رحمت برستی ہے کیا

تیرے بندوں کے ہاتھوں سے برباد ہے

یا الٰہی وہی تیری بستی ہے کیا

سفرا و بادہ و جام تیرے لیے

اور میرے لیے فاقہ مستی ہے کیا

دل کے کعبہ میں ہے پھر صنم معتکف

سوچتا ہوں یہی بت پرستی ہے کیا

یہ جو ہیں تیری آنکھیں یہ ابرو ترے

ان کے آگے مرے دل کی ہستی ہے کیا

ہم جو پہلے ہی رسوا و بدنام ہیں

پھر یہ خلق خدا فقرے کستی ہے کیا

حسرتیں سینکڑوں سر اٹھانے لگیں

زندگی اس قدر ببھی ترستی ہے کیا

آج اختر مقابل ہے قارون پھر

دیکھتا ہوں زمیں اس کو دھنستی ہے کیا


حسنین اختر

No comments:

Post a Comment