Tuesday, 26 September 2023

محبت کر کے آگ اور پانی کو باہم نکلی

 محبت کر کے آگ اور پانی کو باہم نکلی

دل جلتا ہوا نکلا، تو آنکھ نم نکلی

آج گیا تھا بازار عشق اچھا وقت خریدنے

میری قیمت برے وقت سے بھی کم نکلی

اس لیے چھوڑ دی ہے محبت کی تجارت

ہر خواہش کر کے دل میں اک زخم نکلی

لج یوں رہ گئی میرے پندار کی بزم میں

آہ نکلی اسے دیکھ کر، مگر مدهم نکلی

میں ہر در سے نامراد لوٹا راہ حیات میں

اک اداسی تھی جو ہمیشہ مائل بہ کرم نکلی

آپ کے دل کا کوئی چھالا پھٹ گیا ہے صاحب

ابھی سسكی جو آپ کے منہ سے سن کر نظم نکلی

ہر بار بنا زندان مقدر کسی یوسف کا آفتاب

ہر بار کوئی زلیخا محبت کی مجرم نکلی


آفتاب چکوالی

آفتاب احمد خان

No comments:

Post a Comment