نقشِ پا محو ہو جائیں گے
تم سنو گے نہیں
کوئی آواز دیتا رہے گا، بہت دیر تم کو پکارا کرے گا
بالآخر صدا اس کے سینے میں جم جائے گی
اس کی آنکھوں کی بارش بھی اِک روز تھم جائے گی
تم سنو گے نہیں
کچھ کہو گے نہ تم
اور ترسا کرے گی سماعت کسی کی سخن دو سخن کے لیے
جیسے ہجرت زدہ لوگ ترسیں وطن کے لیے
یاس پگھلے ہُوئے گرم سیسے کی مانند کانوں میں بھر جائے گی
کچھ کہو گے نہ تم
تم نہیں آؤ گے
نقشِ پا محو ہو جائیں گے
رہگزاروں پہ اُگتی ہُوئی گھاس جنگل میں ڈھل جائے گی
راستے پر کھڑا منتظر آدمی راہ کی گرد ہو جائے گا
تم نہیں آؤ گے
سلطان ناصر
No comments:
Post a Comment