درد پہلوئے شکستہ میں نمو ہوتا ہوا
ایک لہجے کی مسافت کا لہو ہوتا ہوا
اک حقیقت مِرے آگے ہے نگوں ہوتی ہوئی
اک زمانہ میرے پیچھے ہے عدو ہوتا ہوا
ایک آنسو تھا ندامت کی فصیلوں میں گِھرا
وہ چھلک اٹھا ہے دامن میں سبُو ہوتا ہوا
شوق پیہم ہے جنوں سازئ ہستی میں رواں
خواب کوئی ہے دریدہ سا رفو ہوتا ہوا
درد کی بہتی عبادت ہے ادا ہوتی ہوئی
چشمِ گریہ کی تمازت سے وضو ہوتا ہوا
عشق کی تازہ کلی دل میں نمو جاذب ہوئی
طُور لہجے میں کلیمی کی وہ بُو ہوتا ہوا
ثمر جاذب
No comments:
Post a Comment