Thursday, 28 September 2023

ہمیں بھی تو محبت ہو گئی تھی

 ہمیں بھی تو محبت ہو گئی تھی

نہ پوچھو کیا قیامت ہو گئی تھی

ہمیں جب عشق نے قیدی رکھا تھا

تو جاں دے کر ضمانت ہو گئی تھی

نبھا کا وعدہ کہتے بھول جائیں

جوانی میں حماقت ہو گئی تھی

اٹھائے پھر رہا ہوں لاش اپنی

مِری مجھ سے ہلاکت ہو گئی تھی

یہ تم نے کیسے بدلی ہے بتاؤ

تمہیں بھی میری عادت ہو گئی تھی

میں جب تک لوٹا اپنے پاس تب تک

مِرے اندر بغاوت ہو گئی تھی

اجل آئی ہے میں صدقے میں واری

اذیت میری قسمت ہو گئی تھی

بچھڑتے وقت یہ بھی دُکھ تھا قلزم

وہ کتنی خوبصورت ہو گئی تھی


زبیر قلزم

No comments:

Post a Comment