ہمیں بھی تو محبت ہو گئی تھی
نہ پوچھو کیا قیامت ہو گئی تھی
ہمیں جب عشق نے قیدی رکھا تھا
تو جاں دے کر ضمانت ہو گئی تھی
نبھا کا وعدہ کہتے بھول جائیں
جوانی میں حماقت ہو گئی تھی
اٹھائے پھر رہا ہوں لاش اپنی
مِری مجھ سے ہلاکت ہو گئی تھی
یہ تم نے کیسے بدلی ہے بتاؤ
تمہیں بھی میری عادت ہو گئی تھی
میں جب تک لوٹا اپنے پاس تب تک
مِرے اندر بغاوت ہو گئی تھی
اجل آئی ہے میں صدقے میں واری
اذیت میری قسمت ہو گئی تھی
بچھڑتے وقت یہ بھی دُکھ تھا قلزم
وہ کتنی خوبصورت ہو گئی تھی
زبیر قلزم
No comments:
Post a Comment