احساس کا قصہ ہے سنانا تو پڑے گا
ہر زخم کو اب پھول بنانا تو پڑے گا
ممکن ہے مِرے شعر میں ہر راز ہو لیکن
اک راز پسِ شعر چھپانا تو پڑے گا
آنکھوں کے جزیروں پہ ہیں نیلم کی قطاریں
خوابوں کا جنازہ ہے اٹھانا تو پڑے گا
چہرے پہ کئی چہرے لیے پھرتی ہے دنیا
اب آئینہ دنیا کو دکھانا تو پڑے گا
ذہنوں پہ مسلط ہیں سیہ سوچ کے بادل
ظلمت میں دِیا دل کا جلانا تو پڑے گا
وہ دشمنِ جاں جان سے پیارا بھی ہمیں ہے
رُوٹھے وہ اگر اس کو منانا تو پڑے گا
رشتوں کا یہی وصف ہے ذاکر کی نظر میں
کمزور سہی رشتہ نبھانا تو پڑے گا
ذاکر خان
No comments:
Post a Comment