یہ سوچ کر بھی سمندر اداس رہتا ہے
وہ خوش بدن کسی دریا کے پاس رہتا ہے
یوں خاک ہوتے ہیں اک دن یہ خاک کے پتلے
نہ حسن باقی، نہ چہرے پہ ماس رہتا ہے
اس آئینے کو بھی دو داد، ٹوٹتا ہی نہیں
تمہارے حسن سے بھی روشناس رہتا ہے
ابھی تو جوتے اتارے ہیں اس نے پیروں سے
ابھی تو شرم و حیا کا لباس رہتا ہے
سنے سنائے فسانے سنا دئیے سب نے
تمہارے بارے میں میرا قیاس رہتا ہے
ابھی سے جیت کا اعلان کر دیا تم نے
ابھی تو فیصلہ باقی ہے، ٹاس رہتا ہے
اسد تسکین
No comments:
Post a Comment