Thursday 14 September 2023

لباس جسم کے اندر شرار ہوتے ہوئے

 لباس جسم کے اندر شرار ہوتے ہوئے

عجیب نقش تھے آنکھوں کے پار ہوتے ہوئے

میں اپنی سوچ میں گم تھا کہ دور جھیلوں پر

اُتر گئے تھے پرندے قطار ہوتے ہوئے

پلٹ گئے تھے مِری آنکھ میں پڑے منظر

مِرے خیال کی سکریں پہ بار ہوتے ہوئے

گِرا گئے تھے درختوں کے خواب کھڑکی میں

ہوا کے تخت پہ موسم سوار ہوتے ہوئے

اُڑا رہا تھا مجھے کوئی شب کی مٹی میں

میں دیکھتا رہا خود کو غُبار ہوتے ہوئے


حسن مسعود

No comments:

Post a Comment