لباس جسم کے اندر شرار ہوتے ہوئے
عجیب نقش تھے آنکھوں کے پار ہوتے ہوئے
میں اپنی سوچ میں گم تھا کہ دور جھیلوں پر
اُتر گئے تھے پرندے قطار ہوتے ہوئے
پلٹ گئے تھے مِری آنکھ میں پڑے منظر
مِرے خیال کی سکریں پہ بار ہوتے ہوئے
گِرا گئے تھے درختوں کے خواب کھڑکی میں
ہوا کے تخت پہ موسم سوار ہوتے ہوئے
اُڑا رہا تھا مجھے کوئی شب کی مٹی میں
میں دیکھتا رہا خود کو غُبار ہوتے ہوئے
حسن مسعود
No comments:
Post a Comment