اتنی مانوس کہ قدموں کی صدا جانتی ہے
رہگزر تک مِرا نقشِ کفِ پا جانتی ہے
کون کُمہلا گئے اور کون سرِ شاخ کھِلے
کچھ کو میں جانتا ہوں کچھ کو صبا جانتی ہے
حیرت آمیز نہیں میرے لیے دامِ وجود
ریت پر جو بھی رقم ہے وہ فنا جانتی ہے
کچھ تو میں جانتا ہوں رازِ چراغِ احساس
کچھ تِرے خوابِ شبستاں کی ہوا جانتی ہے
نارسائی و رسائی کا گِلہ کیا کرنا
وہ بہت سادہ و معصوم ہے یا جانتی ہے
میں ہی لڑ سکتا ہوں صرصر سے گلابوں کی قسم
میرے انداز کو اک خلقِ خدا جانتی ہے
بس یہی نا کہ نہیں نِبھ سکی مجھ سے دنیا
جانتا ہوں مِرے بارے میں وہ کیا جانتی ہے
میں نے منہ موڑ لیا اس کی طرف سے اختر
خلقتِ شہر جسے آبِ بقاء جانتی ہے
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment