Tuesday, 19 September 2023

بس یہ ہوا کہ رشتوں کے سب ہاتھ کٹ گئے

بس یہ ہوا کہ رشتوں کے سب ہاتھ کٹ گئے

ہم لوگ اپنے آپ ہی آپس میں بٹ گئے

آثار ممکنات تھے جتنے وہ گھٹ گئے

سورج نکل کے آیا تو کہرے بھی چھٹ گئے

یہ بزدلی تھی اپنی کہ کچھ بھی نہیں کہا

ہونے دیا جو ہونا تھا رستے سے ہٹ گئے

ان سے تو جا کے ملنا بھی دشوار ہو گیا

مصروفیت کے نام پہ ہم بھی سمٹ گئے

ہم کیا کہیں کہ کیسے حماقت یہ ہو گئی

جو تھا سبق بھلانے کا اس کو بھی رٹ گئے

دیوار و در سے اب بھی رفاقت وہی رہی

تنہائیوں میں آئے تو ان سے لپٹ گئے

خورشید اس پہ سوچیے کس کا قصور ہے

آسودگی کے لمحے بھی آ کر پلٹ گئے


خورشید سحر

No comments:

Post a Comment