اک عمر ہوئی جس کو دل و جان میں رکھے
حسرت ہی رہی وہ بھی مجھے دھیان میں رکھے
چھوڑ آئے تِری دید کی خاطر جو چمن کو
وہ پھول بھی مُرجھا گئے گُلدان میں رکھے
آیا نہ کوئی دیکھنے والا سرِ بازار
کیا کیا نا گُہر رہ گئے دوکان میں رکھے
رستے سے گزرتے ہوئے لوگوں کو خبر کیا
یہ پیڑ ہیں کس پھول کو ارمان میں رکھے
خورشید ربانی
No comments:
Post a Comment