حواسِ شہر پہ جب رات چھانے لگتی ہے
تِری جدائی مِری جاں کو آنے لگتی ہے
کبھی کبھی میں بہت کِھلکھلا کے ہنستا ہوں
کبھی کبھی مِری وحشت ٹھکانے لگتی ہے
جو قہقہے نہ لگاؤں تو میرے سینے سے
کسی کے رونے کی آواز آنے لگتی ہے
تُو جا چکا ہے مگر اب بھی تیز بارش میں
تِری گلی مِری نظمیں سنانے لگتی ہے
جسے اُسارے زمانہ بڑی ذہانت سے
یہ عاشقی وہی دیوار ڈھانے لگتی ہے
احمد حماد
No comments:
Post a Comment