Thursday 28 September 2023

اپنے کام سے کام رکھا فیضِ محبت عام رکھا

 اپنے کام سے کام رکھا

فیضِ محبت عام رکھا

اہلِ جہاں کی خاطر بس

ارزاں اپنا دام رکھا

رزق کا پتھرعمر تمام

صبح اٹھایا، شام رکھا

آخری سانس سے قبل ذرا

ہاتھ سے ہم نے جام رکھا

حرف نہ آئےآن پہ کچھ

دھیان یہ ہر ہر گام رکھا

کس کس طور نہ مچلا دل

لیکن اس کو تھام رکھا

پہلے دکھائی راہِ عشق

کیا کیا پھر الزام رکھا

تا کہ تجھ پر بار نہ ہو

نالۂ دل کو خام رکھا

اس بے فکر کی فکر نے ہی

مجھ کو بے آرام رکھا

میں وہ سخن ہوں جس کے بیچ

دانستہ ابہام رکھا

پیکر بے کل ایک بنا

ہجر نے آصف نام رکھا


آصف اکبر جیلانی

No comments:

Post a Comment