کچھ تعلق بھی نہیں رسم جہاں سے آگے
اس سے رشتہ بھی رہا وہم و گماں سے آگے
لے کے پہنچی ہے کہاں سیم بدن کی خواہش
کچھ علاقہ نہ رہا سود و زیاں سے آگے
خواب زاروں میں وہ چہرہ ہے نمو کی صورت
اور اک فصل اگی رشتۂ جاں سے آگے
کب تلک اپنی ہی سانسوں کا چکاتا رہوں قرض
اے مِری آنکھ کوئی خواب دھواں سے آگے
شاخ احساس پہ کھلتے رہے زخموں کے گلاب
کس نے محسوس کیا شورش جاں سے آگے
جب بھی بول اٹھیں گے تنہائی میں لکھے ہوئے حرف
پھیلتے جائیں گے ناقوس و اذاں سے آگے
جس کی کرنوں سے اجالا ہے لہو میں اجمل
جل رہا ہے وہ دیا کاہکشاں سے آگے
کبیر اجمل
No comments:
Post a Comment