تھیمز کے کنارے شام
تھیمز کا کنارا تھا
شام اوڑھ کر رِدا
بے شمار رنگوں کی
پانیوں میں گُھلتی تھی
شام اور پانی کے
ہشت رنگ پلّو کو
میں کھڑا کنارے پہ
خاموشی سے تکتا تھا
میرے ہاتھ پہ ابھی
اس کے نرم ہاتھوں کا
گرم لمس باقی تھا
میری پشت چھلنی تھی
اس کے بند ہونٹوں کے
پُر تپش سوالوں سے
برف سی ہوا سے بھی
اس کی گیلی آنکھوں کی
بے بسی نہ چُھپتی تھی
سوچتا تھامیں یونہی
کیا کنارے دریا کے
مِل کے بھی مِل سکتے ہیں
پھر پلٹ کے دیکھا جو
اُس کی نم آنکھوں کو
اک سوال سا یونہی
دل میں جیسے در آیا
آنکھ میں اُتر آیا
لڑکیاں کیا مغرب کی
اس طرح بھی ہوتیں ہیں
ان کی بھی نگاہیں کیا
یوں سوال کرتی ہیں
کیا بچھڑنے پہ وہ بھی
آنسوؤں سے بھرتی ہیں
یوں گھِرا سوالوں میں
جب قدم بڑھایا تو
پاؤں سے کچھ ٹکرایا
میں نے جھک کے دیکھا تو
کان کی اک بالی تھی
میں نے وہ اٹھائی جب
وہ میرے قریب آئی
اور چھین کر وہی بالی
پھر سے اُس جگہ رکھ دی
اور کہا مجھے اس نے
یہ بھی ایک لمحہ ہے
پیار کرنے والوں کا
یا بچھڑنے والوں کا
چند قدم چلا میں اور
پھر پلٹ کے دیکھا جو
حیرتوں کا دریا تھا
جو مجھے سموتا تھا
تھیمز کے کنارے پر
اک لمحہ محبت کا
یا فقط جدائی کا
اس نے بھی رکھ ڈالا تھا
میں اس ایک لمحے کو
دیکھتا تھا چاہت سے
سوچتا تھا شدّت سے
رب نے ان کی مٹی کو
اک ہی رنگ میں ڈھالا ہے
رنگ بھی محبت کا
لڑکیاں کہیں بھی ہوں
مشرقی یا مغرب کی
لڑکیاں ہی رہتی ہیں
ثمینہ رشید
No comments:
Post a Comment