سازِ ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا
آج تک دنیائے دل فردوس زار نغمہ ہے
دے رہی ہے جنبش لب دعوت لطف و کرم
ایک ہلکا سا تبسم پردہ دار نغمہ ہے
لڑ گئی تھیں رات نظریں چشم ساقی سے مِری
دیکھتا ہوں جس کو سیراب خمار نغمہ ہے
خم کہیں ساغر کہیں مطرب کہیں صہبا کہیں
کون ہے جو مائل بے پردہ دار نغمہ ہے
صہبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment