کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا
مجھے ان آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا
کُھلی آنکھوں سے کب تک جستجو کا خواب دیکھوں گا
حجابِ ہفت پردہ اپنے چہرے سے اٹھاؤ نا
ستارے پر ستارہ اوک میں بہتا چلا آئے
کسی شب کہکشاں انڈیل کر مجھ کو پلاؤ نا
جو چاہو تو زمانے کا زمانہ واژگوں کر دو
مگر پہلے حدود جاں میں ہنگامہ اٹھاؤ نا
سبک دوش زیاں کر دیں زیاں اندیشیاں دل کی
ذرا اسباب دنیا راہ دنیا میں لٹاؤ نا
لیے جاتے ہیں لمحے ریزہ ریزہ کر کے آنکھوں کو
نہایت دیر سے میں منتظر بیٹھا ہوں آؤ نا
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment