ساحل پہ مُرادوں کا سمندر نہیں آیا
وہ شہر میں ہو کر بھی مِرے گھر نہیں آیا
دروازے پہ دستک ہوئی زنجیر بھی کھنکی
جھونکا تھا ہوا کا کوئی اندر نہیں آیا
تُو جب سے مجھے چھوڑ کے پردیس گیا ہے
دُنیا میں مِری کوئی سکندر نہیں آیا
میں شہر میں پھرتا ہوں لیے چاک گریباں
لیکن وہ ستم گر، وہ رفوگر نہیں آیا
مجنوں پہ لڑکپن میں اُٹھایا تھا اسد نے
منصور مِرے سر پہ وہ پتھر نہیں آیا
منصور اعجاز
No comments:
Post a Comment