دلبرا، عمریست تا من دوست می دارم ترا
در غمت می سوزم و گفتن نمی یارم ترا
اے میرے معشوق! ایک عمر گزر گئی ہے کہ میں تجھ سے دوستی اور محبت رکھتا ہوں
تیرے غم میں جلتا رہتا ہوں لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں تجھ سے یہ بات کہہ سکوں
وای بر من کز غمت می میرم و جان می دهم
واگهی نیست از دل افگار بیمارم ترا
افسوس ہے، میری حالت پر کہ میں تیرے غم میں مرا جا رہا ہوں اور میں جان تک دے رہا ہوں
تجھے میرے زخمی اور بیمار دل کی کیفیت سے کوئی خبر ہی نہیں ہےکہ تیرا بیمار غم میں مرتا جا رہا ہے
ای بہ تو روشن دو چشم گر درآری سر بہ من
از عزیزی ہمچو نور دیده می دارم ترا
ا ے میرے محبوب! تیری وجہ سے میری دو آنکھیں روشن ہیں بشرطیکہ تو میری طرف توجہ کرے
میں تو تمہیں اتنا پیار کرتا ہوں جیسے کہ میں اپنی آنکھوں میں بینائی کا نور رکھتا ہوں
داری اندر سر کہ بگذاری مرا و من برآنک
در جمیع عمر خویش از دست نگذارم ترا
تیرے سر میں شاید یہ خیال ہے کہ تو مجھے بھول جائے گا
میں اس خیال میں ہوں کہ ساری عمر میں تمہیں اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا
خواری و آزار بر من، گر بہ تیغ آید ز تو
خارم اندر دیده، گر با گل بیازارم ترا
اگر تیری طرف سے کوئی تیغ جفا میری جانب آ جائے تو میں خوار اور بد حال و پریشان ہو جاتا ہوں
اگر میں تجھے ایک پھول مار کر بھی پریشان کروں تو میری آنکھوں میں کانٹے چبھ جائیں
یک زمان از پای ننشینم بہ جست و جوی تو
یا کنم سر را فدایت، یا بہ دست آرم ترا
ایک لمحے کے لیے بھی اپنے پاؤں پر نہیں بیٹھا اور تیری تلاش میں مصروف رہا ہوں
یا تو میں اپنا سر تجھ پر قربان کر دوں گا یا تجھے پا لوں گا
نیست شرط، ای دوست، با یاران دیرینت جفا
شرم دار آخر کہ من یار وفادارم ترا
اے دوست! تیرے پرانے دوستوں کے ساتھ جفا برداشت کئے جانے کی کوئی شرط تو نہ تھی
ذرا شرم کر کہ آخر کار میں تمہارا ایک پرانا وفادار دوست ہوں
امیر خسرو
No comments:
Post a Comment