اپنے کاسے میں یہ تاوان اُٹھا رکھا ہے
میں نے اک شخص کا احسان اٹھا رکھا ہے
پھول کِھلتے ہیں مِری شاخ پہ ایسے جیسے
میں نے ان سے کوئی پیمان اٹھا رکھا ہے
اک تو دروازہ مقفّل ہے ابھی تک میرا
اس پہ دستک نے جو طوفان اٹھا رکھا ہے
یہ اداسی بھی وراثت میں ملی ہے ہم کو
ہم نے نسلوں سے یہ نقصان اٹھا رکھا ہے
بوجھ خود پر جو پڑا ہے تو یہ احساس ہوا
کیسے دھرتی نے یہ انسان اٹھا رکھا ہے
رضا حسن فاروق
No comments:
Post a Comment