اب بعد فنا کس کو بتاؤں کہ میں کیا تھا
اک خواب تھا اور خواب بھی تعبیر نما تھا
اب تک وہ سماں یاد ہے جب ہوش بجا تھا
ہر شے میں مجھے لطف تھا ہر شے میں مزا تھا
تم جور و جفا مجھ پہ نہ کرتے تو برا تھا
ہوتے نہ اگر ظلم تو کیا لطف وفا تھا
کچھ یاد ہیں آغاز محبت کی وہ باتیں
اور بھولنے والے یہی پیمان وفا تھا
موقوف ہے دیدار فقط ذوق نظر پر
اکثر کے لیے طور کے شعلوں میں خدا تھا
یوں موت پہ میں جان کو قربان نہ کرتا
تُو نے مجھے شاید کوئی پیغام دیا تھا
ہستی و عدم دونوں ہم آغوش تھے گویا
تصویر کا اک رخ تھا فنا ایک بقا تھا
مطلوب کے دل میں بھی طلب تھی مِری شوکت
دیکھا اسے میں نے تو مجھے دیکھ رہا تھا
شوکت تھانوی
No comments:
Post a Comment