Monday, 26 June 2023

اب بعد فنا کس کو بتاؤں کہ میں کیا تھا

 اب بعد فنا کس کو بتاؤں کہ میں کیا تھا

اک خواب تھا اور خواب بھی تعبیر نما تھا

اب تک وہ سماں یاد ہے جب ہوش بجا تھا

ہر شے میں مجھے لطف تھا ہر شے میں مزا تھا

تم جور و جفا مجھ پہ نہ کرتے تو برا تھا

ہوتے نہ اگر ظلم تو کیا لطف وفا تھا

کچھ یاد ہیں آغاز محبت کی وہ باتیں

اور بھولنے والے یہی پیمان وفا تھا

موقوف ہے دیدار فقط ذوق نظر پر

اکثر کے لیے طور کے شعلوں میں خدا تھا

یوں موت پہ میں جان کو قربان نہ کرتا

تُو نے مجھے شاید کوئی پیغام دیا تھا

ہستی و عدم دونوں ہم آغوش تھے گویا

تصویر کا اک رخ تھا فنا ایک بقا تھا

مطلوب کے دل میں بھی طلب تھی مِری شوکت

دیکھا اسے میں نے تو مجھے دیکھ رہا تھا


شوکت تھانوی

No comments:

Post a Comment