تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی
خاک روشن نہ ہوئی شمع سے پروانوں کی
چاہتے ہیں نہ رہے ہوش میں اپنے کوئی
کتنی معصوم ضدیں ہیں تِرے دیوانوں کی
شیشۂ دل سے کوئی برق تڑپ کر نکلی
جب پڑی چوٹ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی
نگہ مست سے ٹکراتے رہے شیشۂ دل
خوب چلتی رہی دیوانوں سے دیوانوں کی
مست صہبائے محبت ہے ازل سے صہبا
اس کو شیشہ کی ضرورت ہے نہ پیمانوں کی
صہبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment