آج محصور ہیں دیمک زدہ دیواروں میں
ہم بھی شامل تھے کبھی شہر کے معماروں میں
آخرش ہاتھ جلا ہی لیے اپنے ہم نے
جانے کیوں پھول نظر آتے تھے انگاروں میں
یہ کسی سے نہ کہا؛ لعل و جواہر تھے ہم
پتھروں کی طرح بِکتے رہے بازاروں میں
دیر تک دستکیں دیتی رہی قسمت در پر
اور ہم الجھے رہے اپنے ہی پنداروں میں
زندگی! تیرے اداکار تھے کیسے ہم بھی
سامنے آتے رہے ہیں کئی کرداروں میں
وقت ہے کر لو مرمت ابھی گھر کی بیتاب
ابھی روزن نہیں ظاہر ہوئے دیواروں میں
پرتپال سنگھ بیتاب
No comments:
Post a Comment