عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
حبیب رب العلا محمدﷺ شفیعِ روزِ جزا محمدﷺ
نگاہ کا مدعا محمدﷺ، خیال کا آسرا محمدﷺ
انہی سے دنیا میں روشنی ہے انہی سے عرفان وآگہی ہے
ہیں آفتابِ جہاں محمدﷺ، جمالِ نورِ خدا محمدﷺ
یہی ہیں زخمِ جگر کا مرہم انہی کا ہے اسم، اسمِ اعظم
قرار بے تابیوں کو آیا، زباں سے جب کہہ دیا محمدﷺ
خدا سے جو کچھ بھی مانگنا ہے اسی وسیلے سے مانگ لیں گے
خدا کا بھی وہ التجا سنے گا، سنیں گے جو التجا محمدﷺ
انہیں کے نقشِ قدم گئے ہیں خدا کے عرفان و معرفت تک
خداشناسی ہے جس کی منزل اسی کے ہیں رہنما محمدﷺ
میں اپنی عقبیٰ سنوارتا ہوں، انہی کو پیہم پکارتا ہوں
مِری زباں پر ہے یا حبیبی، مرا وظیفہ ہے یا محمدﷺ
اسی تمنا میں جی رہا ہوں کہ جا کے روضے کی جالیوں پر
سناؤں حال دلی میں ان کو، سنیں مِرا ماجرا محمدﷺ
درود بھیجا ہے خود خدا نے، رموز کو ان کے کون جانے
کہیں وہ محمودِ کبریا تھے، کہیں لقب ان کا تھا محمدﷺ
ہے بارِ عصیاں صبا کے سر پر نہ کوئی ساتھی نہ کوئی یاور
قدم لرزتے ہیں روزِ محشر سنبھالیے آکے یا محمدﷺ
صبا اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment