Tuesday 27 June 2023

دامن دراز کر تو رہے ہو دعاؤں کے

 دامن دراز کر تو رہے ہو دعاؤں کے

دھبے بھی ہیں نگاہ میں اپنی قباؤں کے

سینہ میں سوز مرگ تمنا نہ پوچھیۓ

مرگھٹ میں جیسے اٹھتے ہوں شعلے چتاؤں کے

ہم نے تو کشتیوں کو ڈبونا کیا قبول

منت گزار ہو نہ سکے ناخداؤں کے

دنیا نے ان پہ چلنے کی راہیں بنائی ہیں

آئے نظر جہاں بھی نشاں میرے پاؤں کے

صحرا کے خشک سینہ سے چشمہ اُبل پڑا

رگڑے لگے جو ننھے سے بچہ کے پاؤں کے

بوڑھا سا ایک پیڑ وہ اب صحن میں نہیں

ہم نے اُٹھائے فیض سدا جس کی چھاؤں کے

پی لو امیر! اب مئے عرفان و آگہی

کیوں جال میں پھنسے ہو مجازی خداؤں کے


امیر اعظم قریشی

No comments:

Post a Comment