Thursday, 22 June 2023

اس عالم ادراک میں جب اس کی کمی تھی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اس عالمِ ادراک میں جب اس کی کمی تھی

وہ کیا تھا جسے چشمِ ازل ڈھونڈ رہی تھی

فاراں سے تِری ساعت آمد کوئی پوچھے

صدیوں یہ سحر نُور کے دھاروں سے دُھلی تھی

خالق تو ہے آزاد زماں اور مکاں سے

جو طُور پہ پھیلی تھی وہ پرچھائیں تِری تھی

بُلوایا گیا عالمِ امکاں سے بھی آگے

کس شان سے بندے کی مدارات ہوئی تھی

وہ وارثِ اقلیمِ جناں صاحبِ معراج

وہ جس کے لیے کرسیٔ آیات بنی تھی

وہ جس کا جگر آئینۂ لوحِ مقدس

وہ جس کی زباں طٰحٰہ و یاسیں میں ڈھلی تھی

وہ جس کا بیاں کوثر و تسنیم سے شیریں

ختم اس پہ ہی لفظوں کی تگ و تاز ہوئی تھی

اے آفریں! تجھ کو نہ سلیقہ تھا دعا کا

دربار میں آقاؐ کے بھلا کوئی کمی تھی


عشرت آفریں

No comments:

Post a Comment