زادِ رہ بھی نہیں، بے رختِ سفر جاتے ہیں
سخت حیرت ہے کہ یہ لوگ کدھر جاتے ہیں
بے خودی میں تِرے دیوانے جدھر جاتے ہیں
منزلیں پُوچھتی پھرتی ہیں کدھر جاتے ہیں
ہائے، کس موڑ پہ حالات نے پہنچایا ہے
آپ ہمسائے سے، ہم سایہ سے ڈر جاتے ہیں
آپ جا سکتے نہیں چاند ستاروں سے پرے
ہم ورائے حدِ ادراک نظر جاتے ہیں
آپ کے طنز سر آنکھوں پہ مگر یاد رہے
یہ وہ نشتر ہیں کے سینے میں اُتر جاتے ہیں
آپ دیکھیں یہ مِری نیند سے بوجھل آنکھیں
ہو چکی رات، اجازت ہو تو گھر جاتے ہیں
زُلف کھولو تو گھنی چھاؤں میں کچھ سستا لیں
دو گھڑی کے لیے سائے میں ٹھہر جاتے ہیں
زخم الفاظ کے ناسُور ہوا کرتے ہیں
بات زخموں کہ نہیں زخم تو بھر جاتے ہیں
لاکھ سنجیدہ سہی تاج حسینوں کی روش
دل اُڑا لینے کے انداز کدھر جاتے ہیں
ریاست علی تاج
No comments:
Post a Comment