Monday 26 June 2023

وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک

 وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک

رسائی سالکو! جب عقل کر لے حدِ امکاں تک

جنوں میں دستِ لاغر کا ہے قبضہ اس بیاباں تک

جہاں سو منزلیں پڑتی ہیں دامن سے گریباں تک

مِرے دستِ جنوں کا زور اور پھر زور بھی کیسا

کہ ہمراہ گریباں کھینچے لاتا ہے رگِ جاں تک

تمہیں تو کھیل تھا نظریں ملا کر منہ چھپا لینا

یہاں نشتر ہزاروں رک گئے آ کر رگ جاں تک

کفن میں کوئی دیکھے آج ان ہاتھوں کی مجبوری

رہا کرتے تھے گردش میں جو دامن سے گریباں تک


ابر احسنی گنوری

احمد بخش

No comments:

Post a Comment