Monday, 26 June 2023

دل کو کچھ یوں تیری یاد کے عذاب سے نکالا

 دل کو کچھ یوں تیری یاد کے عذاب سے نکالا

عشق کو ایڑ لگائی اور پاؤں رکاب سے نکالا

تھل میں دفن کیا ہے کبھی عاشق کو ہم نے

کبھی معشوق کی لاش کو چناب سے نکالا

فقط سانس بچتی ہے، اور وہ بھی سزا

تمہیں کھو کر سود و زیاں حساب سے نکالا

میری گفتگو میں شامل وہی بات تو نہیں تھی

گِلہ جو آپ نے صاحب میرے جواب سے نکالا

رنگت تھی نہ خوشبو ریزہ ریزہ میری طرح

تیرا دیا ہوا گلاب جو آج کتاب سے نکالا

دشمن کے مورچوں سے طعنہ ملا تو پھر

آستیں کو اپنی ہم نے تسلطِ احباب سے نکالا

توبہ کی فضیلت سمجھی تواب تک پہنچا

ایک نقطہ جس دن میں نے ثواب سے نکالا


آفتاب چکوالی

آفتاب احمد خان

No comments:

Post a Comment