دل کو کچھ یوں تیری یاد کے عذاب سے نکالا
عشق کو ایڑ لگائی اور پاؤں رکاب سے نکالا
تھل میں دفن کیا ہے کبھی عاشق کو ہم نے
کبھی معشوق کی لاش کو چناب سے نکالا
فقط سانس بچتی ہے، اور وہ بھی سزا
تمہیں کھو کر سود و زیاں حساب سے نکالا
میری گفتگو میں شامل وہی بات تو نہیں تھی
گِلہ جو آپ نے صاحب میرے جواب سے نکالا
رنگت تھی نہ خوشبو ریزہ ریزہ میری طرح
تیرا دیا ہوا گلاب جو آج کتاب سے نکالا
دشمن کے مورچوں سے طعنہ ملا تو پھر
آستیں کو اپنی ہم نے تسلطِ احباب سے نکالا
توبہ کی فضیلت سمجھی تواب تک پہنچا
ایک نقطہ جس دن میں نے ثواب سے نکالا
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment