آگ
قرآں سے دھواں سا اٹھتا ہے اور عرشِ بریں تھرّاتا ہے
اللہ! وفورِ غیرت سے نبیوںؑ کو پسینہ آتا ہے
وہ قبلۂ اول منزل تھی، معراج کی شب جو احمدﷺ کی
وہ مسجدِ اقصیٰ جلتی ہے، ایمان شہادت پاتا ہے
وہ تین سو تیرہ تھے جن سے تقدیرِ اُمم تھرّاتی تھی
ہم پون ارب ہیں جن کا سر ہر گام پہ جُھکتا جاتا ہے
تھے صرف بہتّر جن کا لہو معراجِ شعورِ ہستی ہے
محرابِ شفق پر جن کا علم ہر شام و سحر لہراتا ہے
سرکارِ دو عالمﷺ کی اُمت، اللہ کے ضیغم کے پیرو
دلگیر ہیں، گُرگِ صیہونی اندازِ شنا دہراتا ہے
٭
ہم وہ ہیں کہ جن کی تکبیریں گُونجی ہیں سوادِ عالم میں
ہم وہ ہیں کہ جن کے کلمے سے اصنامِ جہاں لرزیدہ ہیں
ہوں بدر و احد یا خیبر ہو یا واہگہ اور چونڈہ ہوں
ہم وہ ہیں کہ جن کی ہیبت سے کُفارِ جہاں ترسیدہ ہیں
کیا سوچ کے ہم پر بھونکے ہیں غیلانِ سگانِ صیہونی
مجروح اسادِ خفتہ بھی دمبازوں سے بالیدہ ہیں
٭٭
ایثار و شجاعت کے خوں سے پھر باب رقم کرنا ہو گا
شبیرؑ کی سنت پر چل کر جینے کے لیے مرنا ہو گا
رِندانِ خُمستانِ مِلت! ناوک بہ گلو اصغرؑ کی قسم
میخانۂ دِیں میں شہ رگ سے ہر جامِ وفا بھرنا ہو گا
٭٭٭
ہے اپنا عَلم کالی کملی اور ابنِ علیؑ کا پیراہن
دستارِ علیِؑ شیرِ خدا، عابدؑ کے گلے کے طوق و رسن
ہم ہاتھ میں لے کر یہ پرچم ہر دشمنِ دِیں پر ٹُوٹیں گے
اے قبلۂ اول! تیرے لیے باندھیں گے سروں سے اپنے کفن
اے مسجدِ اقصیٰ تیرے لیے ہم خون سے ہولی کھیلیں گے
ہم رزم و وِغا کے عادی ہیں، ہے جان گنوانا اپنا چلن
سید فخرالدین بلے
یہ نظم 23 اگست 1969 کے مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے سانحے پر کہی گئی تھی۔
No comments:
Post a Comment