Wednesday 28 June 2023

بس یہی سوچ کے دوبارہ محبت نہیں کی

 بس یہی سوچ کے دوبارہ محبت نہیں کی

عمر بھر اس نے مِرے شہر سے ہجرت نہیں کی

فاسق و فاجر و غدار کہا جاتا ہے

جرم اتنا ہے کہ ظالم کی اطاعت نہیں کی

میرے مولا یہ در و بام سلامت رکھنا

میں نے اس بار قبیلے کی حمایت نہیں کی

ہیں مِری ذات سے دو چار گلے اس کو بھی

سامنے آ کے کبھی اس نے شکایت نہیں کی

خواب دل گیر کی دنیا میں بڑا ہی خوش ہوں

میں حقیقت کے جزیروں کی سیاحت نہیں کی

پگڑیاں سب کی برابر ہی ہوا کرتی ہیں

کیا میں دوران عداوت تِری عزت نہیں کی

یہ جو دھرتی کا بدن بانجھ بنا ہے ساحل

شہنشاہوں نے رعایا کی حفاظت نہیں کی


ساحل سلہری

No comments:

Post a Comment