جب درد کی زبان میں کچھ بولتے ہیں ہم
بہری سماعتوں میں بھی رس گھولتے ہیں ہم
ہوتی ہیں کائنات کی سانسیں بھی مُشک بُو
بابِ گُلِ اُمید کو جب کھولتے ہیں ہم
سادہ دلی سے کھائے ہیں دھوکے قدم قدم
ہر آدمی کو پہلے نہیں تولتے ہیں ہم
ہم نے تمہاری بات سُنی خامشی کے ساتھ
کیوں بولتے ہو بیچ میں جب بولتے ہیں ہم
اس پر یہ مستزاد کہ شرمندہ بھی نہیں
اپنی خودی کو پاؤں تلے رولتے ہیں ہم
کشکول اپنا بھرنے کی خاطر جہان میں
کس خُوشدلی سے اپنے زیاں مولتے ہیں ہم
عمران انجم
No comments:
Post a Comment