نہ تسلی، نہ تشفی، نہ دعا کچھ بھی نہیں
کوئی شکوہ، نہ شکایت، نہ گلہ کچھ بھی نہیں
خُلق تھا، حفظِ مراتب تھا، تکلف تھا مگر
مُدتوں بعد ملے بھی تو ملا کچھ بھی نہیں
آئیے، بیٹھیۓ، فرمائیے، کہیۓ کے سوا
دیر تک بات ہوئی اور کہا کچھ بھی نہیں
تُو نے احوال ہی پوچھا نہیں، ورنہ کہتے
اور سب ٹھیک ہے، پر تیرے سوا کچھ بھی نہیں
احمد خلیل
No comments:
Post a Comment