عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تمنائے دیرینہ کردگار
بوے ایزد از خویش امیدوار
وہ کردگار کی دیرینہ تمنا کی تکمیل ہیں
ان سے خالق کی امیدیں وابستہ ہیں
تن از نور پالودہ سر چشمہ
دلے ہمچو مہتاب در چشمہ
ان کا جسم مبارک گویا نور سے ڈھکا ہوا سرچشمہ ہے
ان کا دل گویا چشمے میں نظر آتا مہتاب کا عکس ہے
دل امید جائے زیاں دیدگاں
نظر قبلہ گاہِ جہاں دیدگاں
ان کا دل، گناہگاروں کی امیدگاہ ہے
ان کی نظر اہلِ معرفت کی قبلہ گاہ ہے
بہ رفتار صحرا گلستاں کنے
بہ گفتار کافر مسلماں کنے
ان کی چال مبارک کے کیا کہنے کہ صحرا میں چہل قدمی کریں تو اسے گلستاں کر دیں
ان کی شیریں گفتاری کے کیا کہنے کہ کافر کو بھی مسلماں کر دیں
بدنیا ز دیں روشنائی دہے
بہ عقبیٰ زِ آتش رہائی دہے
وہ دنیا میں ہیں تو دنیا کو اپنے دین سے روشنائی دیتے ہیں
اگر وہ آخرت میں ہوں توآگ کے عذاب سے نجات دلواتے ہیں
لب نازنینش گزارش پذیر
جہاں آفرینش سپارش پذیر
جونہی ان کے پیارے لبوں پر حرفِ شفاعت آتا ہے
خالقِ عالم ان کی سفارش قبول فرما لیتا ہے
مرزا غالب
No comments:
Post a Comment