ہوا ہوں آشنا میں بے خودی سے
لگایا دل کو اپنا مئے کشی سے
نبھاتے فرض کو ہیں تندہی سے
"ہمارا حوصلہ ہے زندگی سے"
اندھیری رات کا ہے وہ پُجاری
اُسے ہے چِڑ اے لوگو روشنی سے
فرشتے کی صفت پایا نہیں ہے
خطا لازم یہاں ہے آدمی سے
نہ پچھتانا پڑے روزِ قیامت
لگائیں دل خدا کی بندگی سے
تیرے احباب جتنے بھی ہیں ثاقب
سبھی واقف ہیں تیری سادگی سے
ثاقب کلیم
No comments:
Post a Comment