زندگی موت سے بھاری ہے
اک بے نام درد آنکھوں کے نیچے
گہرے سیاہ نیل چھوڑ چکا ہے
زندگی ریشم کے دھاگوں کے گچھے کی مانند
الجھی ہوئی ہے، سلجھ نہیں رہی
نا ہی اتنی ہمت ہے کہ سلجھائی جا سکے
اک غیر متوقع دُکھ نے
مایوسی کا ایسا تھپڑ رسید کیا ہےکہ
ہوش میں آتے آتے شاید اب وقت لگے
میری ہر امید خوشی سے منہ چڑا رہی ہے
اور میں اتنی ڈھیٹ ہو چکی ہوں کہ
اک آنسو تک بہنے نہیں دے رہی لیکن
اب میرا ذہن کام کرنا چھوڑ رہا ہے
بالکل ایسے جیسے مینٹل ہاسپٹل میں
کوئ پاگل ہنس کر ،رو کر، نڈھال ہو کر گِر پڑے
سانسیں بمشکل کھینچ کھینچ کر لینی پڑ رہی ہیں
ہاتھوں سے بیڈ کی چادر کو جنجھوڑ کر
جانے کس تلخی کو
ضبط کرنے کی کوشش جاری ہے
ان گنت چیخیں حلق کی
سلاخوں کے پیچھے قید ہیں
دماغ مسلسل دل کو اک پیغام پہنچا رہا ہے
زندگی موت سے بھاری ہے
زندگی موت سے بھاری ہے
عنیزہ غفور
No comments:
Post a Comment