Wednesday 28 June 2023

کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا

 جوگی


کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا

سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور طہور ہوا

مستانہ ہوائے گلشن تھی جانانہ ادائے گلبن تھی

ہر وادی وادیٔ ایمن تھی ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا

جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخ نہال رباب بنی

شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا

سب طائر مل کر گانے لگے، مستانہ وہ تانیں اڑانے لگے

اشجار بھی وجد میں آنے لگے، گلزار بھی بزمِ سرور ہوا

سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ نشاط سجائی تھی

بن میں، گلشن میں، آنگن میں، فرشِ سنجاب و سمور ہوا

تھا دل کش منظر باغ جہاں اور چال صبا کی مستانہ

اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ

چیلوں نے جھنڈے گاڑھے تھے، پربت پر چھاؤنی چھائی تھی

تھے جیسے ڈیرے بادل کے کُہرے نے قنات لگائی تھی

یاں برف کے تودے گلتے تھے چاندنی کے فوارے چلتے تھے

چشمے سیماب اگلتے تھے نالوں نے دھوم مچائی تھی

اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا

تھی راکھ جنوں میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی

تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیرہن تن پر

تھی ایک لنگوٹی زیب کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی

سب خلق خدا سے بیگانہ وہ مست قلندر دیوانہ

بیٹھا تھا جوگی مستانہ آنکھوں میں مستی چھائی تھی

جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا

تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا

کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لیے آ کے ستاتے ہو

ہیں پنکھ پکھیرو بن باسی تم جال میں ان کو پھنساتے ہو

کوئی جھگڑا دال چپاتی کا، کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا

کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا، تم ہم کو سنانے آتے ہو

ہم حرص و ہوا کو چھوڑ چکے اس نگری سے منہ موڑ چکے

ہم جو زنجیریں توڑ چکے تم لا کے وہی پہناتے ہو

تم پوجا کرتے ہو دھن کی، ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی

ہم جوت لگاتے ہیں من کی، تم اس کو آگے بُجھاتے ہو

سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے، من میں ساجن کا ڈیرا ہے

یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے، تم کس سے آنکھ ملاتے ہو

یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا

سر اس کے جھکا کر چرنوں پر، جوگی کو ہم نے جواب دیا

ہیں ہم پردیسی سیلانی، یوں آنکھ نہ ہم سے چرا جوگی

ہم آئے ہیں تیرے درشن کو، چتون پر میل نہ لا جوگی

آبادی سے منہ پھیرا کیوں، جنگل میں کیا ہے ڈیرا کیوں

ہر محفل میں ہر منزل میں، ہر دل میں ہے نور خدا جوگی

کیا مسجد میں، کیا مندر میں، سب جلوہ ہے وجہ اللہ کا

پربت میں، نگر میں، ساگر میں اترا ہے ہر جا جوگی

جی شہر میں خوب بہلتا ہے، واں حسن پہ عشق مچلتا ہے

واں پریم کا ساگر چلتا ہے، چل دل کی پیاس پیاس جوگی

واں دل کا غنچہ کھلتا ہے، گلیوں میں موہن ملتا ہے

چل شہر میں سنکھ بجا جوگی، بازار میں دُھونی رما جوگی

پھر جوگی جی بیدار ہوئے، اس چھیڑ نے اتنا کام کیا

پھر عشق کے اس متوالے نے، یہ وحدت کا اک جام دیا

ان چِکنی چُپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا

جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا

ہے شہروں میں غُل شور بہت اور کام کرودھ کا زور بہت

بستے ہیں نگر میں چور بہت، سادھو کی ہے بن میں جا بابا

ہے شہر میں شورشِ نفسانی، جنگل میں ہے جلوۂ روحانی

ہے نگری ڈگری کثرت کی، بن وحدت کا دریا بابا

ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں، چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں

راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں، پرجا کی نہیں پروا بابا

سر پر آکاش کا منڈل ہے، دھرتی پہ سہانی مخمل ہے

دن کو سورج کی محفل ہے، شب کو تاروں کی سبھا بابا

جب جھوم کے یاں گھن آتے ہیں، مستی کا رنگ جماتے ہیں

چشمے طنبور بجاتے ہیں، گاتی ہے ملہار ہوا بابا

جب پنچھی مل کر گاتے ہیں، پیتم کے سندیس سناتے ہیں

سب بن کے برچھ جھک جاتے ہیں، تھم جاتے ہیں دریا بابا

ہے حرص و ہوا کا دھیان تمہیں اور یاد نہیں بھگوان تمہیں

سل، پتھر، اینٹ، مکان تمہیں دیتے ہیں یہ راہ بُھلا بابا

پرماتما کی وہ چاہ نہیں اور روح کو دل میں راہ نہیں

ہر بات میں اپنے مطلب کے تم گھڑ لیتے ہوں خدا بابا

تن من کو دھن میں لگاتے ہو ہر نام کو دل سے بھلاتے ہو

ماٹی میں لعل گنواتے ہو، تم بندۂ حِرص و ہوا بابا

دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے

یہ عالم عالم فانی ہے، باقی ہے ذات خدا بابا


خوشی محمد ناظر

آج انگلینڈ یو کے میں عید کا دن ہے، عید کے دن جہاں ایک طرف وطن سے دوری اور ماں باپ کے دنیا سے گزر جانے کے بعد ایک طرف ان کی کمی محسوس ہوتی ہے وہیں میں کشمیر کی دلفریب وادیوں کو بھی بہت مس کرتا ہوں۔ دل کو بہلانے کے لیے آج خوشی محمد ناظر کی ایک بہت پیاری نظم جوگی آپ سے بانٹنا چاہوں گا۔ گجرات پنجاب کے یہ شاعر جموں کشمیر کے مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دربار میں وزیر تھے، گو کہ نظم جوگی براہِ راست کشمیر کے بارے میں نہیں لیکن آپ کو اس میں کشمیر کے حسین اور دلکش قدرتی حسن کا منظر نامہ ضرور ملے گا۔ 

No comments:

Post a Comment