بدلے بدلے ہیں اشارے آج کل
سوچتے ہو کس کے بارے آج کل
آنکھ میں کیوں ہے اداسی شام سی
پوچھتے رہتے ہیں سارے آج کل
جان لے لیتا ہے تنہا گھومنا
رات کو دریا کنارے آج کل
ایک منزل تھی، جدا کیسے ہوئے
راستے میرے تمہارے آج کل
نیند گہری سو گئے جن کے نصیب
جاگتے ہیں تھم کے مارے آج کل
بجلیوں سے کیا گِلہ بابر کریں
گردشوں میں ہیں ستارے آج کل
بابر شکیل ہاشمی
No comments:
Post a Comment