Wednesday 21 June 2023

بدلے بدلے ہیں اشارے آج کل

 بدلے بدلے ہیں اشارے آج کل

سوچتے ہو کس کے بارے آج کل

آنکھ میں کیوں ہے اداسی شام سی

پوچھتے رہتے ہیں سارے آج کل

جان لے لیتا ہے تنہا گھومنا

رات کو دریا کنارے آج کل

ایک منزل تھی، جدا کیسے ہوئے

راستے میرے تمہارے آج کل

نیند گہری سو گئے جن کے نصیب

جاگتے ہیں تھم کے مارے آج کل

بجلیوں سے کیا گِلہ بابر کریں

گردشوں میں ہیں ستارے آج کل


بابر شکیل ہاشمی

No comments:

Post a Comment